jhon eliea

بولتے کیوں نہیں میرے حق میں..جون ایلیا

جون ایلیا، شہرِ روشنیوں کراچی سے تعلق رکھنے والے اردو کے منفرد شاعر، کو ہم سے بچھڑے 19 برس ہو گئے ہیں۔ ان کا انتقال 8 نومبر 2002 کو کراچی میں ہوا۔ اپنی زندگی میں وہ جتنے مقبول نہیں تھے، آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں وہ اس سے کہیں زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ گوگل پر سب سے زیادہ تلاش کیے جانے والے اردو شاعر جون ایلیا ہی ہیں۔ نوجوان نسل ان کی شاعری کو سننا، پڑھنا اور ان کی شخصیت کے بارے میں جاننا چاہتی ہے۔ ان کی ویڈیوز شاعری کے شوقین نوجوانوں میں بے حد مقبول ہیں۔
جون ایلیا کی شہرت کی سب سے بڑی وجہ ان کی اختراعی اور غیر روایتی سوچ ہے۔ ان کی شاعری میں جدت اور تخلیقیت کا عنصر نمایاں ہے۔ ان کا کلام تنہائی اور خود کو فنا کرنے کی کیفیات سے لبریز ہے، لیکن وہ اس کا شکوہ نہیں کرتے۔ ان کی شاعری میں موت، خون تھوکنے کی باتیں، اور زندگی کی مسرتوں کی غیر موجودگی جھلکتی ہے۔ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جو دل کی وارداتوں کے اثرات میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ جون ایلیا کا کلام آج بھی اپنے منفرد انداز کی وجہ سے دلوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔
جون ایلیا کی شاعرانہ عظمت اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے سے پہلے ان کی پیدائش، خاندان اور وطن کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ جون ایلیا کا اصل نام سید سبط اصغر نقوی تھا، اور وہ 14 دسمبر 1931 کو ہندوستان کے شہر امروہا کے محلے لکڑہ، جسے دربار شاہ ولایت بھی کہا جاتا ہے، میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شفیق حسن ایلیا ایک علمی اور مذہبی شخصیت کے طور پر مشہور تھے، اور عربی، فارسی، سنسکرت، انگریزی اور عبرانی زبانوں کے ماہر تھے۔ جون ایلیا کی ابتدائی تعلیم اپنے والد کی نگرانی میں ہوئی، جہاں انہوں نے ادیب کامل کے امتحانات پاس کیے، فارسی میں کامل اور عربی میں فاضل کی ڈگری حاصل کی۔ وہ تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، ان کے بڑے بھائی رئیس امروہی ایک شاعر، صحافی، دانشور اور مفکر تھے، جبکہ دوسرے بھائی سید محمد تقی عالمی شہرت یافتہ فلسفی تھے۔
شفیق حسن ایلیا کے گھر کا ماحول تعلیمی، مذہبی اور روایتی تھا، جہاں سائنس، فلسفہ، فنون لطیفہ، مذہب، تاریخ اور علم فلکیات پر گہری گفتگو ہوتی تھی۔ جون ایلیا کی جوانی کے دوران پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ شروع میں وہ قیام پاکستان کے مخالف تھے، مگر بعد میں انہوں نے پاکستان کو تسلیم کیا اور 1957 میں کراچی منتقل ہو گئے۔ جون ایلیا اسماعیلیہ ایسو سی ایشن آف پاکستان سے بھی وابستہ رہے اور 1963 سے 1968 تک تصنیف و تالیف کے کام کی نگرانی کی۔ وہ اردو ڈکشنری بورڈ سے بھی طویل عرصے تک منسلک رہے اور اپنی اہلیہ زاہدہ حنا کے ساتھ عالمی ڈائجسٹ کی ادارت بھی کی۔ فلسفہ، منطق، صوفی روایت، مغربی ادب، اسلامی تاریخ، اور حتیٰ کہ یہودیت کے باطنی پہلوؤں پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ جون ایلیا ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے — وہ شاعر، فلسفی، مدیر، سیرت نگار، اسکالر اور مترجم تھے۔ مغرب کے فلسفے پر بھی ان کی گہری بصیرت تھی، اور اپنی کتاب “شاید” میں انہوں نے کانٹ، ڈینٹے، فرائڈ، ڈیوڈ ہیوم، امام غزالی، عرفی، والٹئر، ٹالسٹائے اور دیگر مغربی فلسفیوں کے کام کا حوالہ دیا ہے۔
جون ایلیا کی شاعری عشق اور ازدواجی زندگی کی ناکامی کے درد سے مملو نظر آتی ہے۔ جون ایلیا کی زندگی میں ایک وقت آدم بیزاری اور تنہائی پسندی کا دور ایسا بھی آیا کہ جب وہ دس برس تک گھر کے ایک کمرے تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ ان کا قلم سرد پڑ گیا تھا۔ یہ عرصہ 1976 سے 1986 تک چلا۔ اس کے بعد جون ایلیا نے خود کو بازیافت کیا۔
لازم ہے اپنے آپ کی امداد کچھ کروں
سینے میں وہ خلا ہے کہ ایجاد کچھ کروں
جون ایلیا خوش رہ کر بھی خوش نہیں تھا اور غمزدہ رہ کر بھی غم زدہ نہیں تھا۔ وہ ایک ایسا قلمکار ہے
جو اپنے بارے میں کنفیوز تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے جون خود کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
ذات ہے اعتبار ذات نہیں
اب تو میں خود بھی اپنے ساتھ نہیں
۔۔۔۔۔۔
میں رہا عمر بھر جدا خود سے
یاد میں خود کو عمر بھر آیا
۔۔۔۔۔۔
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے

جون ایلیا کے کلام میں ایسا عاشق نظر آتا ہے جسے اس کے عشق کا صلہ نہ ملا۔ وہ تنہائی کا مارا ہوا ہے۔
غم فراق سے نڈھال ہے۔ وہ درد دروں کا شاعر ہے۔
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
۔۔۔۔۔

تاریخ روزگار فنا لکھ رہا ہوں میں
دیباچۂ وجود پہ لا لکھ رہا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔
عجیب ہے مری فطرت کہ آج ہی مثلاً
مجھے سکون ملا ہے ترے نہ آنے سے
۔۔۔۔
ایزا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں
ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں
زندگی کے فلسفے کا جون ایلیا کو گہرا ادراک تھا۔ ان کی شاعری میں عرفانی پہلو بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

اتنا خالی تھا اندروں میرا
کچھ دنوں تو خدا رہا مجھ میں
۔۔۔۔
حسن کے جانے کتنے چہرے حسن کے جانے کتنے نام
عشق کا پیشہ حسن پرستی عشق بڑا ہرجائی ہے
۔۔۔۔۔
حاصل کن ہے یہ جہاں خراب
یہ ہی ممکن تھا اتنی عجلت میں

جون ایلیا کی شخصیت میں عجب قسم کا تضاد نظر آتا ہے۔ وہ خود پسند بہت ہے۔
خود سے عشق کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود کو تباہ بھی کرنے پر تلا ہوا ہے۔

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں.
۔۔۔۔
ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں
اپنی حالت تباہ کی جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
جون ایلیا پر کمیونزم کی گہری چھاپ تھی۔ ان کے بہت سے اشعار اس کی غمازی کرتے ہیں۔ وہ خود کو انارکسٹ کہتے تھے۔
جون ایلیا کے خیال میں شعرا، فلاسفی، ادیبوں اور مفکرین کا ایک مشترکہ خواب ہے اور وہ ہے مساوات۔ یقینن ہمیں ایک ایسے
معاشرے کی تشکیل کے لئے کوشاں رہنا چاہئے جہاں مساوات ہو۔ جون ایلیا کے خیال میں مذہبی افراد اور کمیونسٹوں کے درمیان دشمنی
فطری نہیں ہے بلکہ مارکسی نظریات کو بدنام کرنے کے لئے سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کی پیدا کردہ ہے۔
۔۔۔۔
کل ایک قصر عیش میں بزم سخن تھی جون
جو کچھ بھی تھا وہاں وہ غریبوں کا مال تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا مل گیا ضمیر ہنر بیچ کر مجھے
اتنا کہ صرف کام چلاتا رہا ہوں میں
۔۔۔۔۔
جو رعنائی نگاہوں کے لئے فردوش جلوہ ہے
لباس مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی
۔۔۔۔۔
یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ

یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی
۔۔۔۔
تاریخ نے قوموں کو دیا ہے یہی پیغام
حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعاد ستم
جز حریفان ستم کس کو پکارا جائے
۔۔۔۔
وقت نے ایک ہی موقع پہ کیا ہے تعلیم
حاکم وقت کو مسند سے اتارا جائے
۔۔۔
خوش بدن پیرہن ہو سرخ ترا
دلبرا بانکپن ہو سرخ ترا

ان کے قلم کو نظم کے ساتھ ساتھ نثر لکھنے پر بھی ملکہ حاصل تھا۔ جون ایلیا نے قبل اسلام عربوں کی تاریخ،
عالمی مذاہب، اسلامی تاریخ، اور مسلم فلسفے پر بہت کچھ لکھا۔ انہوں نے عربی اور فارسی کی متعدد کتابوں کا اردو
میں ترجمہ کیا۔ نثری قلمی کاوش میں صرف ‘فرنود’ ہی شائع ہو سکی ہے۔ ‘فرنود’ ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں
نے سسپنس ڈائجسٹ اور عالمی ڈائجسٹ کے لئے تحریر کئے تھے۔ انہوں نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ان میں دینیات کی
ایک شاخ متزلہ سے لیکرتہذیب و تمدن، اکیسویں صدی اور فلسفہ زمان و مکان شامل ہیں۔ نثر کے حوالے سے انہوں نے
جو کتب تصنیف کیں ان میں ’’مسیح بغداد، حلاج، جو میٹریا، تواسین، اسافوجی، مسائل تجرید اور رسائل اخوان الصفا شامل ہیں۔

میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب
اس کا بے حد لحاظ کیجئے گا

جون ایلیا نہ صرف اپنے نام اور کلام کے حوالے سے یکتائے زمانہ رہے بلکہ اپنی جسمانی ساخت، وضع قطع اور پڑھنے
کے انداز کے معاملے میں بھی یکتا تھے۔ ہر شاعر اپنا کلام پڑھتا ہے۔ الفاظ کے اتار چڑھاؤ کا خیال رکھتا ہے لیکن جون ایلیا
جس طریقے سے اپنے کلام کی گہرائی اور گیرائی کو محسوس کرکے شعر پڑھتے تھے تو بسا اوقات ان کی آواز گلو گیر ہو جاتی تھی
۔ فرط جذبات سے سر کو جھٹک دیتے تھے۔ سر پر ہاتھ مارتے تھے۔ بال بکھیر لیتے تھے یہ سب وہ اسٹیج پر ڈرامائی صورتحال پیدا
کرنے کے لئے نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا وہ عمل بے اختیارانہ ہوتا تھا۔ وہ اس کیفیت میں ڈوب جاتے تھے جو وہ اپنے اس شعر کے
حوالے سے محسوس کرتے تھے۔ جون ایلیا زبان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کا لہجہ کلاسیکیت والا ہے۔ بیشتر کلام سہل ممتنع ہے۔
ان کے یہاں سادگی بھی ہے اور پرکاری بھی۔ محاوروں کا برمحل استمال بھی۔ بیان میں تلخی بھی ہے اور شوخی بھی۔ یہی
وہ محاسن ہیں جو جون ایلیا کو جون ایلیا بناتے ہیں۔ جون نے اپنے کلام کی جو کائنات چھوڑی ہے وہ ہے۔ شاید، یعن
ی، گمان، لیکن، گویا اور فرمود۔ منفرد حلیہ بشرے اور منفرد لب و لہجہ کا یہ شاعر اکہتر برس کی عمر میں 8
نومبر 2002 کو جہان فانی سے کوچ کرگیا۔ اور اپنے پیچھے ایسا خلا چھوڑ گیا جس کا پر ہونا ناممکن ہے۔

آخری بار آہ کرلی ہے
میں نے خود سے نباہ کرلی ہے
۔۔۔۔
اپنے سر اک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے
۔۔۔۔۔
دل برباد کو آباد کیا ہے میں
آج مدت میں تمہیں یاد کیا ہے میں نے
۔۔۔۔۔
اک ہنر ہے جو کرگیا ہوں میں
سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں
۔۔۔۔۔
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مرگیا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم
اپنا گھر بھول گئے ان کی گلی بھول گئے
۔۔۔۔۔
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
۔۔۔۔۔۔۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو
۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو اب کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
۔۔۔
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
۔۔۔۔
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
۔۔۔۔۔۔۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرا ہے
۔۔۔۔۔۔
ہم نے کئے گناہ تو دوزخ ملی ہمیں
دوزخ کا کیا گناہ کہ دوزخ کو ہم ملے
۔۔۔۔
ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کہ اب اک اجنبی بن کر اسے پہچاننا ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔
آئینہ کہتا ہے کہنا تو ہمیں چاہئے تھا
تو زندہ ہے۔ رہنا تو نہیں چاہئے تھا
۔۔۔۔۔۔۔
ترک الفت سے کیا ہوا حاصل
تب بھی مرتا تھا اب بھی مرتا ہے۔

شئیر کیجئے اپنے دوستوں کے ساتھ

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp
Email
اپنا تبصرہ لکھیں