عمیر ایاز
میرا تعلّق کراچی کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے- جہاں تعلیم کو بے حد اہمیت حاصل ہے-
میں بچپن سے بے حد شرارتی اور کھیل کود میں مصروف رہتا تھا اور تعلیم کو کوئی اہمیت نہ دیتا-
میرے والدین مجھے پیار سے، غصے سے، ڈانٹ کر، مار پیٹ کر کے سمجھاتے مگر میں تھا جو کسی کے قابو میں ہی نہ آتا تھا-
میرے فرسٹ ایئر کے امتحانات تھے اور میں دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے اور کرکٹ کھیلنے میں مصروف-
اس وقت مجھے اندازہ ہی نہ تھا کہ اس کا میری زندگی میں کیا اثر پڑ سکتا ہے-
میرا رزلٹ آیا تو میں تین پیپرز میں فیل ہو چکا تھا- میں گھر والوں سے تو کیا خود سے نظریں ملانے سے گھبرا رہا تھا-
شدید غم و غصے کے عالم میں میں نے اپنے موبائل کو توڑ کر پھینک دیا، سب سے دور ہوگیا اور ایک کمرے کو اپنا دوست بنا لیا اور خود سے عہد کیا کہ سب کچھ چھوڑ کر صرف پڑھائی کروں گا-
والدین کے جھکے سٙر کو دوبارہ بلند کروں گا- دن میں چار گھنٹے سوتا اور باقی پورا دن پڑھتا رہتا- دن اور رات ایک کردئیے- خود کو کچھ عجیب و غریب بیماریوں کا شکار کردیا مگر تعلیم نہ چھوڑی-
امتحانات ہوئے اور میں نے اس بار بہترین نمبرز سے تمام پیپرز پاس کیئے اور اس کے بعد کراچی کی ایک بہترین یونیورسٹی میں اپلائیڈ فزکس کے ڈیپارٹ میں داخلہ لیا-
مجھے جیسے قدرت کے رازوں کو قریب سے جاننے کا بے حد شوق پیدا ہوچکا تھا اور میں اپنی منزل پر گامزن قدرت کے رازوں کو جانتا چلا گیا- ماسٹرز ختم ہوا اور میں نے سِلور میڈل حاصل کیا-
آج میں نیویارک کے اندر جس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہا ہوں وہیں پڑھا بھی رہا ہوں- اس سب کے پیچھے صرف میری ناکامی تھی جس نے مجھے
سکھایا کہ گِر کر اٹھا کیسے جاتا ہے- میرے کچھ اپنے تھے جنہوں نے مجھے چھوڑ دیا تھا اور کچھ غیر تھے جو مجھ پر بھروسہ کرتے تھے اور یہی کہتے تھے کہ تو کرسکتا ہے-
ہر چیز حاصل کرسکتا ہے جو تو چاہتا ہے بس لگ جا اپنے کام پر اور حاصل کرلے جو قدرت نے تیرے لیے اس جہاں میں مقرر کر رکھا ہے-
شئیر کیجئے اپنے دوستوں کے ساتھ
Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp
Email